آج بھی پلکوں پہ لرزاں ہجر کا تلخاب ہے

جانے کب تقدیر میں دیدار کا نوشاب ہے

تیرے دم سے رونقِ کونین ہے یا مصطفیٰ

خاکِ طیبہ تیری نسبت سے ہوئی زرناب ہے

اس کی آنکھوں کو فرشتے دیکھنے آتے رہے

جس کی آنکھوں میں مدینے کی گلی کا خواب ہے

بے شبہ میرا نبی ہے رونقِ بزمِ جہاں

منبعِ انوار ہے خورشیدِ عالم تاب ہے

آج بھی غارِ حرا تکتی ہے رستہ آپ کا

مضطرب، بے چین، بے کل آج بھی محراب ہے

اس طرف مقبول ہوگا حج و عمرہ آپ کا

شہرِ طیبہ کا اشارہ دے رہا میزاب ہے

یا نبی، اشفاقؔ نامی ایک شاعر نعت گو

آپ کے در کی حضوری کے لئے بےتاب ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]