اردوئے معلیٰ

Search

 

دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

دکھا دو جلوہ ہٹا کے پردہ ہمارے نیناں ترس گئے ہیں

 

ہمیں بھی دو بوند ہوں عنایت ہمارا دامن بھی منتظر ہے

تری عطا کے، ترے کرم کے مطیر بادل برس گئے ہیں

 

کوئی بھی دل کش حسین منظر نظر میں جچتا نہیں ہماری

درِ نبی کے حسیں نظارے ہماری آنکھوں میں بس گئے ہیں

 

ترے ثناء گو کا ایک اک پل حضوریوں میں گزر رہا ہے

ذرا توجہ ہٹی تھی میری تو ناگ فرقت کے ڈس گئے ہیں

 

پرندے فکر و خیال والے سدا رہیں گے اسیر تیرے

ملا نہیں اذنِ باریابی پلٹ کے سوئے قفس گئے ہیں

 

ہو نقشِ پا پر یہ جان قرباں ہو نعلِ پا پر جہان قرباں

سنا کے مژدہ شفاعتوں کا جو گھول کانوں میں رس گئے ہیں

 

رواں تھا اشفاقؔ بحر رحمت کرم کی موجیں عروج پر تھیں

مرے گناہوں کے بھاری پتھر مثالِ خاشاک و خس گئے ہیں

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ