آدمی کب کسی شمار میں ہے
سب ہی کچھ تیرے اختیار میں ہے
میرے رب مجھ پہ رحم فرما دے
فکر میری ابھی غبار میں ہے
دیدِ کعبہ نصیب ہو یا رب!
اک تڑپ قلبِ بے قرار میں ہے
سیرتِ مصطفٰے میں ڈھل جاؤں
یہ دعا روحِ تار تار میں ہے
بخش دے ہر گناہ، اے مالک!
التجا قلبِ شرم سار میں ہے
میرے اعمال ہیں سیاہ مگر
نورِ ایماں تو دل کے غار میں ہے
وسعتِ عالمین تو یارب!
تیرے ہی نور کے حصار میں ہے
روزِ اوّل کیا تھا جو رب سے
دل اُسی عہد کے خمار میں ہے
کاش بعدِ وصال خلق کہے
روحِ احسنؔ تو مرغزار میں ہے