آدمی کب کسی شمار میں ہے

سب ہی کچھ تیرے اختیار میں ہے

میرے رب مجھ پہ رحم فرما دے

فکر میری ابھی غبار میں ہے

دیدِ کعبہ نصیب ہو یا رب!

اک تڑپ قلبِ بے قرار میں ہے

سیرتِ مصطفٰے میں ڈھل جاؤں

یہ دعا روحِ تار تار میں ہے

بخش دے ہر گناہ، اے مالک!

التجا قلبِ شرم سار میں ہے

میرے اعمال ہیں سیاہ مگر

نورِ ایماں تو دل کے غار میں ہے

وسعتِ عالمین تو یارب!

تیرے ہی نور کے حصار میں ہے

روزِ اوّل کیا تھا جو رب سے

دل اُسی عہد کے خمار میں ہے

کاش بعدِ وصال خلق کہے

روحِ احسنؔ تو مرغزار میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]