آنکھ میں ہی ٹھہر گیا دریا

جونہی سر سے اتر گیا دریا

آنکھ کب تک سمیٹ کر رکھتی

ایک پل میں بکھر گیا دریا

کون اترا ہے تشنگی لے کر؟

ہائے لوگو! کدھر گیا دریا؟

شہر والوں میں شور برپا تھا

چپکے چپکے گزر گیا دریا

باعثِ بے گھری بنا یارو

جانے کس کس کے گھر گیا دریا

رات آنکھوں میں تھا قیام پزیر

اور وقتِ سحر گیا دریا

کتنا خاموش ہو گیا دیکھو

جانے کیسے سدھر گیا دریا

پیاس جس کی تلاش میں گم تھی

زینؔ اُس کے شہر گیا دریا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]