اٹکا ہے بڑی دیر سے خوش فہم کا دم بھی

تم ہاتھ جھٹک دو کہ سہولت سے مَرے دل

یہ کم ہے کہ بے آس دھڑکتا ہے ابھی تک

اب اور بھلا خآک کرامات کرے دل

جاتے ہوئے لمحے نہ ٹھہرنے تھے وگرنہ

سجدے کیے رستوں میں تو قدموں دھرے دل

اب کوئی صدا ہے ، نہ گلہ ہے ، نہ تقاضہ

بیٹھا ہے زمانے سے ترے در سے پرے دل

ممکن ہے خد و خال ابھر آئیں ہمارے

اس خاک کے خاکے میں کوئی رنگ بھرے دل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]