اٹھا ہوں گر کے ، مرا حوصلہ کمال کا تھا

پہ منتظریہ زمانہ مرے زوال کا تھا

قریب ِ مرگ کہیں راز قربتوں کا کھلا

فریبِ چشم تھا، وہ واہمہ خیال کا تھا

تمام لوگ جو بولے تو میں بھی چیخ اٹھا

جواب جانے یہ کس شخص کے سوال کا تھا

گھٹا میں ،پھول میں ، پیڑوں میں ،چاند تاروں میں

جہان بھر میں ہی جلوہ ترے جمال کا تھا

یہ میرے دوست مجھے جانتے نہیں قیصرؔ

مگروہ ایک عدو کس قدر کمال کا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]