اپنوں نے بھی منّت کی، غیروں نے بھی سمجھایا

کرنا تھا جو اِس دل نے کیا، باز نہیں آیا

نالہ کبھی کھینچا ہے، تو گیت کبھی گایا

نازِ شبِ ہجراں تو کسی طور نہ اُٹھ پایا

دیکھا تھا کبھی جس کی گلیوں میں اُسے دل نے

چلتے ہی رہے ہم تو وہ شہر نہیں آیا

آوارگی میری ہے رستے کے مقدر میں

اور میرے مقدر میں ہر منزلِ بے سایا

غزلوں میں فسانوں میں کس شخص کی باتیں ہیں؟

ہم نے تو بہت ڈھونڈا، دیکھا نہ کہیں پایا

جب یاد کوئی آئی، ہم روئے اکیلے میں

جب روئے اکیلے میں، تو یاد کوئی آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]