اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں

رب ملا ان سے تو کیوں ان کو نہ رب سے مانگوں

ان کی نسبت ہے بہت ان کا وسیلہ ہے بہت

کیوں میں کم ظرف بنوں بڑھ کے طلب سے مانگوں

جس ضیا سے صدا جگ مگ ر ہے دنیا من کی

اس کی ہلکی سی رمق ماہِ عرب سے مانگوں

آندھیاں جس کی حفاظت کو رہیں سرگرداں

پیار کا دیپ وہ بازارِ ادب سے مانگوں

کوئی اسلوب سلیقہ نہ قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انھیں کسی طور سے، ڈھب سے مانگوں

کارواں نعت کا اے کاش رواں یوں ہی رہے

اور میں نِت نئے عنوان ادب سے مانگوں

آسؔ آباد رہے شہر مری الفت کا

ہر گھڑی اس کی خوشی دستِ طلب سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]