اپنے آہنگ سے جدا نہ بنا

میری تصویر کو نیا نہ بنا

غم کی ترسیل ہے بجا لیکن

میری آنکھوں کو بھیگتا نہ بنا

تو بنا شوق سے مری آنکھیں

اپنی آنکھوں کو آئنہ نہ بنا

مجھ کو جلنے دے اپنی آگ میں بس

تو سرھانے مرے دیا نہ بنا

خاک رکھ دی ہے چاک پر تیرے

تیری مرضی ہے اب بنا نہ بنا

تو کسی اور دھن میں رقصاں ہے

میری وحشت کو تجربہ نہ بنا

میں نگاہوں میں آ چکا ہوں، مجھے

دائرہ کر لے ، زاویہ نہ بنا

میری منزل بس اک مسافر ہے

تو کوئی اور راستہ نہ بنا

عشق ہے ، بندگی نہیں، سو اُسے

شاہ زادی بنا ، خدا نہ بنا

مجھ کو دل چاہے آئینہ کر لے

اس میں تُو عکس دوسرا نہ بنا

سرخ یادوں کی دھوپ میں قیصر

زرد سوچوں کا زاویہ نہ بنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]