اپنے ایمان و یقیں میں وہ کھرا ہوتا ہے

جو کہ ہر حال میں راضی بہ قضا ہوتا ہے

جال میں نفس کے ہر شخص پھنسا ہوتا ہے

یہ وہ دشمن، جو سدا دوست نما ہوتا ہے

قیدیِ سلسلۂ عمرِ بقا ہوتا ہے

مر کے انساں یہ غلط ہے کہ فنا ہوتا ہے

منفرد نقش ہے نقاشِ ازل کا ہر فرد

پُر نہیں ہوتا ہے پیدا جو خلا ہوتا ہے

لاکھ سجدوں سے بھی برتر ہے وہ سبحان اللہ

ایک سجدہ کہ سرِ دار ادا ہوتا ہے

زخمِ دیرینہ کوئی رسنے لگا پھر شاید

"​آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے”​

درِ دل جس کا مقفل ہو تو پہنچے کیسے

بابِ توبہ کے کھلے ہونے سے کیا ہوتا ہے

رات کو رات میں کہہ دوں تو سزاوارِ سزا

روزِ روشن جو کہیں وہ تو روا ہوتا ہے

قوم کو لے کے ہو غرقاب وہ لاریب اک دن

وقت کا اپنے جو فرعون بنا ہوتا ہے

جان دے دی رہِ حق میں تجھے مژدہ اے دوست

اک بڑے فرض سے تو عہدہ برآ ہوتا ہے

کثرتِ آرزو عنوانِ ہلاکت ہے نظرؔ

آدمی خود ہی گرفتارِ بلا ہوتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]