اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل
لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل
صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا
لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل
آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا
اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل
تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے
افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل
لے دے کہ آشنا بھی یہی کم نصیب تھا
بعد از شکستِ دل بھی سہارا ہوا یہ دل
کچھ آسماں بھی راس نہٰیں آ سکا اسے
کچھ آسمان کو نہ گوارا ہوا یہ دل
آئینہ فراق میں حیرت سے جھانکتا
ساکت کھڑا ہے تیرا سنوارا ہوا یہ دل