اپنے گھر ، اپنی دھرتی کی آس لئے بو باس لئے

جنگل جنگل گھوم رہا ہوں جنم جنم کی پیاس لئے

جتنے موتی ، کنکر اور خذف تھے اپنے پاس لئے

میں انجانے سفر پر نکلا ، مدھر ملن کی آس لئے

کچی کاگر پھوٹ نہ جائے ، نازک شیشہ ٹوٹ نہ جائے

جیون کی پگڈنڈی پر ، چلتا ہوں یہ احساس لئے

وہ ننھی سی خواہش اب بھی دل کو جلائے رکھتی ہے

جس کے تیاگ کی خاطر میں نے کتنے ہی بن باس لئے

سوچ رہی ہے کیسے آشاؤں کا نشیمن بنتا ہے

من کی چڑیا تن کے دوارے بیٹھی چونچ میں گھاس لئے

جب پربت پر برف گرے گی سب پنچھی اُڑ جائیں گے

جھیل کنارے جا بیٹھیں گے اک انجانی پیاس لئے

چھوڑ کے سنگھرشوں کے جھنجٹ ، توڑ کے آشا کے رشتے

گوتمؔ برگد کے سائے میں بیٹھا ہے سنیاس لئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]