اچھا ہوا بسیط خلاؤں میں کھو گئے

یوں بھی سماعتوں پہ مرے لفظ بار تھے

کس کس کو رو چکا ہوں ، کسی کو کہاں خبر

اس ایک شخص سے مرے رشتے ہزار تھے

حسرت سے دیکھتے ہوئے گزرے حیات کو

جو کم نصیب ، وقت کے رتھ پر سوار تھے

تم نے تو پھونک مار دی لیکن خطوطِ دل

نقشِ پسِ غبار نہیں تھے ، غبار تھے

میں تو چلو شکست کی تجسیم ہی سہی

وہ لوگ کیا ہوئے کہ ترے جاں نثار تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]