اک بہانہ تھا شام سے پہلے

لوٹ آنا تھا شام سے پہلے

شام کے بعد جیت جاتے ناں

ہار جانا تھا شام سے پہلے

رات جو رونے دھونے بیٹھو گے

غم سنانا تھا شام سے پہلے

اب بھلا رات کیسے گزرے گی

دل دُکھانا تھا شام سے پہلے

چاہے تم بعد میں مُکر جاتے

مان جانا تھا شام سے پہلے

یہ نہیں وقت روٹھ جانے کا

روٹھ جانا تھا شام سے پہلے

شام میں وہ غزل نہیں سُنتا

زینؔ جانا تھا شام سے پہلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]