’’اک مصرعۂ ثنا جو کھلا آسماں کی سمت‘‘

چشمِ کریم ہونے لگی عاصیاں کی سمت

رندوں کا یہ ہجوم ہے کیوں میکدے میں آج

کیوں جا رہے ہیں آج وہ پیرِ مغاں کی سمت

ہیں غمزدوں کے حال سے ہر حال با خبر

کرتے ہیں التفات وہ آہ و فغاں کی سمت

سدرہ پہ جا کے رک گئے روح الامین بھی

میرے حضور بڑھ گئے ہیں لامکاں کی سمت

رحمت ہے دو جہان کو میرے نبی کی ذات

تکتے ہیں چین کے لئے تسکینِ جاں کی سمت

ورثہ ملا ہے حضرتِ حسان کا جسے

بڑھنے لگیں محبتیں اس نعت خواں کی سمت

مشکل نے جب کبھی بھی پریشاں کیا مجھے

دیکھا نظر اٹھا کے اسی مہرباں کی سمت

آتے نہیں ہیں مجھ سے گنہ گار ہی فقط

قدسی بھی آ رہے ہیں ترے آستاں کی سمت

مجھے کو ملے حضور کی پہچان اے خدا

میں جا رہا ہوں قبر میں اک امتحاں کی سمت

لیتے ہی نام سرورِ کونین کا جلیل

راحت بڑھا رہی ہے قدم ناتواں کی سمت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]