اک نور سا تا حد نظر پیشِ نظر ہے​

میں اور مدینے کا سفر پیشِ نظر ہے​

ہر چند نہیں تاب مگر دیکھیے پھر بھی​

وہ مطلع انوارِ سحر پیشِ نظر ہے​

جو میرے تخیل کے جھروکے میں کہیں تھا​

صد شکر وہ مقصودِ نظر پیشِ نظر ہے​

بخشش کا وسیلہ ہے ہر اک اشکِ ندامت​

کچھ خوف ہے باقی ، نہ خطر پیشِ نظر ہے​

اس بارگہہ ناز کا صد رنگ نظارا​

ہر لحظہ بہ انداز دگر پیشِ نظر ہے​

ہر چند سوئے کعبہ میرے سجدے ہیں لیکن​

وہ قبلہ ہر اہلِ نظر پیشِ نظر ہے​

گو فردِ عمل میری گناہوں سے بھری ہے​

ہر لحظہ کرم ان کا مگر پیشِ نظر ہے​

کیا بام و درِ خلد نگاہوں میں جچیں گے​

فردوس کے سردار کا در پیشِ نظر ہے​

مانگی تھیں جو بادیدہ تر میں نے دعائیں​

ایسی ہی دعاوں کا اثر پیشِ نظر ہے​

میں اور مواجہ پہ یہ لمحاتِ حضوری​

آرامِ دل و نورِ نظر پیشِ نظر ہے​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]