اگرچہ روزِ ازل سے ہے میرا فن لکھنا

مگر مزارِ محبت کو کیا بدن لکھنا

ہٹا رہے ہو اگر سائبان پلکوں کے

جو دھوپ پھیل رہی ہے اسے کفن لکھنا

میں داستان بھی ہوں زیبِ داستان بھی ہوں

مؤرخو مرے قصے کو من و عن لکھنا

وہ جوئے خون بہائیں تو جوئے شیر کہو

دلوں کو چیرنے والوں کو کوہکن لکھنا

میں وہ کمال کا شاعر ہوں جس کو آتا ہے

سکوتِ خانہِ ویراں کو انجمن لکھنا

قلم ہوئے ہیں قدم تو جنوں نے سیکھا ہے

جبینِ دشت و بیابان پر وطن لکھنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]