اگر اے نسیمِ سحر ترا! ہو گزر دیار ِحجاز میں

مری چشمِ تر کا سلام کہنا حضورِ بندہ نواز میں

تمہیں حدِ عقل نہ پاسکی فقط اتنا حال بتا سکی

کہ تم ایک جلوہء راز تھے جو نہاں ہے رنگِ مجاز میں

نہ جہاں میں راحتِ جاں ملی ، نہ متاعِ امن و اماں ملی

جو دوائے دردِ نہاں ملی ، تو ملی بہشتِ حجاز میں

عجب اک سُرور سا چھا گیا مری روح و دل میں سما گیا

ترا نام ناز سے آگیا مِرے لب پہ جب بھی نماز میں

کروں نذر نغمہء جاں فزا میں کہاں سے اخترِ بے نوا

کہ سوائے نالہء دل نہیں مرے دل کے غمزدہ ساز میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]