اگر روشن مرے احساس کا خاور نہیں ہوتا

مرا پیکر حقیقت میں مرا پیکر نہیں ہوتا

مکمل ہاں مکمل صبر کا دفتر نہیں ہوتا

پیمبر کے شکم پر گر کوئی پتھر نہیں ہوتا

سکوں کی نیند سو رہتے ہیں جو فٹ پاتھ پر ان کو

غمِ بستر نہیں ہوتا ، غمِ چادر نہیں ہوتا

نظر دوڑاؤ اور حالات کی بے چینیاں دیکھو

جو باہر ہو رہا ہے کیا وہی اندر نہیں ہوتا

تعجب ہے کہ کیسے زندگی کی سانس چلتی ہے

مرے سینے پہ کب اندوہ کا خنجر نہیں ہوتا

جو شدت غم کی بڑھتی ہے تو آنسو سوکھ جاتے ہیں

بھری برسات میں برسات کا منظر نہیں ہوتا

متینؔ ان کو بھی دیکھو کتنی بے فکری سے جیتے ہیں

کرائے کا بھی جن کے پاس کوئی گھر نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]