اہلِ دل چشمِ گہربار سے پہچانے گئے

دیدہ ور تیرے ہی دیدار سے پہچانے گئے

ہم نے کب دعویٰ زمانے میں کیا الفت کا

ہم تو چپ تھے، ترے انکار سے پہچانے گئے

خود کو آزاد سمجھتے تھے مگر وقتِ سفر

ایک زنجیر کی جھنکار سے پہچانے گئے

معرکے جو بھی سمندر سے ہوئے ساحل تک

میری ٹوٹی ہوئی پتوار سے پہچانے گئے

دشمنی میں نے اصولوں کی بنا پر رکھی

میرے دشمن میرے کردار سے پہچانے گئے

آ گیا دست صحافت میں عدالت کا قلم

جھوٹ اور سچ بھی اب اخبار سے پہچانے گئے

آج کے دورِ ضرورت میں مشینوں کی طرح

آدمی کام کی رفتار سے پہچانے گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]