ایک الزام کے جواب میں کہی گئی نظم

!سنو، میری جاں
تُم سدا ایک رَم خوردہ ، وحشت زدہ اور سراسیمہ ہرنی کی مانند
ڈرتی ہو مجھ سے
بدکتی ہو مجھ سے

سنو، میری جاں! اور دیکھو
مرے ہاتھ میں کوئی دو دھاری خنجر نہیں، میرا دل ہے
مرے پاس ترکش نہیں ہے، غزل ہے
خدا کی قسم، میرے رختِ سفر میں
کتابوں، گُلابوں اور ایک آدھ جام و سبو کے سوا
اور کچھ بھی نہیں ہے
تمہاری جواں خوشبوؤں کے تعاقب میں
دشتِ جنوں چھان مارا ہے میں نے
تمہارے ہی نقشِ کفِ پا کے پیچھے میں صحرائے پر ہَول طے کر چُکا ہوں
یہ خواہش ہوس کی نہیں، عشق کی ہے

سنو، میں محبت کے معصوم جذبے سے عاری نہیں ہوں
نہیں، میری جاں! میں شکاری نہیں ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]