ایک دفعہ کا ذکر ہے ، چھت پر میں حسب معمول گئی

اس کو ہنستے دیکھا اور پلکیں جھپکانا بھول گئی

ساری رات کی جاگی آنکھیں کھلنے سے انکاری تھیں

پوچھ نہ کیسے کام سمیٹے اور کیسے اسکول گئی

دونوں نے جینے مرنے کی قسمیں ساتھ اٹھائی تھیں

لڑکے کے اب دو بچے ہیں ، لڑکی چھت سے جھول گئی

وقت نے ایسی گرد اڑائی عمریں یونہی بیت گئیں

نہ پاوں کی خاک ہٹی اور نہ چہرے کی دھول گئی

عشق مسافت کرنے والوں کی ہمت پہ حیرت ہے

میں نے بس دو کوس کئے تھے میری سانس تو پھول گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]