ایک منظر پسِ منظر بھی دکھایا جائے

سانحہ گیارہ ستمبر کے بعد میڈیا کے رویے اور کردار کے حوالے سے لکھی گئی ایک غزل

ایک منظر پسِ منظر بھی دکھایا جائے

لوح سادہ کو پلٹ کر بھی دکھایا جائے

ناتواں ہاتھ میں مجبور سے پتھر کے خلاف

ظلم کا آہنی لشکر بھی دکھایا جائے

سرنگوں مجھ کو دکھاتے ہو بتقریبِ شکست

پھر مری پشت میں خنجر بھی دکھایا جائے

جس کے ساحل پہ ہوئے پیاس کے مارے باغی

منصفوں کو وہ سمندر بھی دکھایا جائے

وہ جو رکھے گئے مصروفِ تماشائے نشاط

ان کو محرومی کا منظر بھی دکھایا جائے

سوزن دستِ رفوگر کی نمائش دیکھی

اب اُس استین کا خنجر بھی دکھایا جائے

پس کردار جو چہرے تھے ڈرامے میں ظہیرؔ

اُن کو بہروپ ہٹا کر بھی دکھایا جائے

ایک منظر پسِ منظر بھی دکھایا جائے

لوح سادہ کو پلٹ کر بھی دکھایا جائے

ناتواں ہاتھ میں مجبور سے پتھر کے خلاف

ظلم کا آہنی لشکر بھی دکھایا جائے

سرنگوں مجھ کو دکھاتے ہو بتقریبِ شکست

پھر مری پشت میں خنجر بھی دکھایا جائے

جس کے ساحل پہ ہوئے پیاس کے مارے باغی

منصفوں کو وہ سمندر بھی دکھایا جائے

وہ جو رکھے گئے مصروفِ تماشائے نشاط

ان کو محرومی کا منظر بھی دکھایا جائے

سوزن دستِ رفوگر کی نمائش دیکھی

اب اُس استین کا خنجر بھی دکھایا جائے

پس کردار جو چہرے تھے ڈرامے میں ظہیرؔ

اُن کو بہروپ ہٹا کر بھی دکھایا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]