ایک ہی جیسے لگے سُننے میں افسانے کئی

ہو بھی سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہوں ہم سے کئی

چار آنکھیں چاہئیں اس کی حفاظت کیلئے

آنے جانے کیلئے جس گھر میں ہوں رستے کئی

آدمی کے پر لگے ہیں جب سے سمٹی ہے زمیں

اب تو جینے کے لئے درکار ہیں چولے کئی

ٹھن گئی ہے اس لئے تقدیر اور تدبیر میں

ہاتھ تو ہر اِک کے دو ہیں اور گل دستے کئی

بات قسمت کی نہیں ، دل تھا ہوس نا آشنا

ورنہ ہم کو بھی ملے تھے کام کے بندے کئی

قربتوں سے فاصلوں کی جس سے بیداری ملی

جسم و جاں کے درمیاں آئے نظر پردے کئی

بھیڑ میں ایسے گھرے کہ بڑھ گئیں تنہائیاں

ساتھ ہی لیکن ہوئے آباد، ویرانے کئی

لب پہ ہلکی سی ہنسی اور قلب ڈانواں ڈول ہے

راہ میں کعبے کے پڑتے ہیں صنم خانے کئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]