اے خُدا اب تو مِرا تُو ہی بھرم قائِم رکھ

میری آنکھوں کو نمی دی ہے تو نم قائِم رکھ

سرخمِیدہ ہے تِرے سامنے اور یُوں ہی رہے

عِجز بڑھتا ہی رہے، اِس میں یہ خم قائِم رکھ

کیا کہُوں میرے گُناہوں کی نہِیں کوئی حدُود

مُجھ خطا کار پہ تُو اپنا کرم قائِم رکھ

یاد محبُوب کے کُوچے کی ستاتی ہے مُجھے

جو مدِینے کا مِرے دل میں ہے غم قائِم رکھ

ہم کو اِسلام کے جھنڈے کے تلے کر یکجا

دِل میں اِیمان رہے، سر پہ علم قائِم رکھ

تیری مخلُوق سے میں پیار کرُوں، دُکھ بانٹُوں

اور بدلے میں مِلے جو بھی سِتم قائِم رکھ

تُو خُدا میرا ہے مقصُود مُجھے تیری رضا

تُو ہے راضی تو مِرے رنج و الم قائِم رکھ

تیرے محبُوب کی ہے مُجھ کو شِفاعت کی آس

کملی والے کی ہے بس تُجھ کو قسم قائِم رکھ

خاک حسرتؔ سے بھلا ہو گی ثنا خوانی تِری

عِجز بڑھ کر ہے مِرے دِل میں کہ کم قائِم رکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]