اے رسولِ ہاشمی ، اے سرِّ تکوینِ حیات

اے کہ تیری ذات ہے وجۂ نمودِ کائنات

تو نہ تھا تو محفلِ کون و مکاں بے رنگ تھی

تو نہ تھا تو بزمِ ہستی سازِ بے آہنگ تھی

حسنِ فطرت میں ابھی ذوقِ خود آرائی نہ تھا

عشق ابھی تک دشمنِ صبر و شکیبائی نہ تھا

تلخیٔ حق سے ابھی ناآشنا گفتار تھی

عقلِ انسانی ابھی پابستۂ انکار تھی

سربلندوں کی جبیں سجدے سے نورانی نہ تھی

حسن تھا پر عشق کی کچھ ایسی ارزانی نہ تھی

چشمِ انساں میں ابھی تک جستجو حیراں نہ تھی

سینۂ انساں میں آہِ نیم شب لرزاں نہ تھی

آںکھ میں آنسو نہ تھے سر میں نگوں ساری نہ تھی

قلبِ مومن کی جہاں میں گرم بازاری نہ تھی

خواب میں آسودہ ابراہیمؑ کی تکبیر تھی

ہیبتِ ضربِ کلیمؑ اک خوابِ بے تعبیر تھی

بربطِ داؤدؑ اک مدت سے رہنِ زنگ تھی

مے تو تھی لیکن بہت بے کیف اور کم رنگ تھی

تو نے آتے ہی بدل دی طرحِ تقویمِ حیات

ہو گئیں پابندِ امکانِ عمل ناممکنات

قالبِ ہستی میں دوڑا دی شعاعِ زندگی

ہو گئی ارزاں ترے دم سے متاعِ زندگی

اس قدر تو نے بڑھائی قیمتِ خود آگہی

مردِ مومن کی نظر میں بوریا ، تختِ شہی

اس طرح توڑا طلسمِ باطلِ حرص و ہوس

چشمِ اعرابی میں کسریٰ کا تجمل ، خار و خس

زندگی تیرے لیے اک داستانِ عشق و مرگ

یہ جہانِ بے ثبات اک کاروانِ عشق و مرگ

پیکرِ گِل کو کیا توحید کا سرِّ جلی

خاک کو دی قدرتِ نشوِ حسین ابنِ علی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]