اے نقطۂِ سطوحِ جہاں ! اے مدارِ خلق !

تو محورِ نفوس ہے ، تو اعتبارِ خلق

تاریکیِٔ ضَلال میں بہرِ نشانِ فوز

ہے اسوۂِ سراجِ مُنیری مَنَارِ خلق

اک تیری یاد ٹھہری ہے تعویذ ہر بلا

اک تیرا اسم خیر صفت ہے حصارِ خلق

اِک دستِ مصطفیٰ کے تصرف میں نَظمِ کل

اِک بازوئے رسول پہ سارا ہے بارِ خلق

بازارِ ہست میں ہیں ترے دم سے رونقیں

چلتا ہے تیرے نام سے ہی کاروبارِ خلق

صورت تری ہے ناز گہِ قدرتِ خدا

مخلوقیت تری ہے شہا ! افتخارِ خلق

مرفوع جو ہو شانِ ” رفعنا ” کی نعت سے

مجرور کیا کرے گا اسے حرفِ جارِ خلق

وجہِ نُشور و کُن ہیں معظمؔ قسیمِ کُل

المختصر انہی پہ ہے دار و مدارِ خلق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]