باتیں ہیں اُجلی اُجلی اور من اندر سے کالے ہیں

اس نگری کے سارے چہرے اپنے دیکھے بھالے ہیں

نینوں میں کاجل کے ڈورے رُخ پہ زلف کے ہالے ہیں

من مایا کو لوٹنے والے کتنے بھولے بھالے ہیں

تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ جبر نہیں، تم تو بولو

ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں

آنکھوں میں روشن ہیں تمھاری آشاؤں کے سندر دیپ

دل میں سہانی یادوں کے کچھ دھندلے سے اجیالے ہیں

تم سے کیسا شکوہ کرنا، شکوہ کرنا اب لاحاصل

خود ہی سوچو تم نے اب تک کتنے وعدے ٹالے ہیں

آج اگر احباب ہمارے ہم کو ہی ڈستے ہیں تو کیا

یہ زہریلے ناگ تو ناصر ہم نے خود ہی پالے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]