بارش بھری رات

شاخِ شب پر کوئی مہتاب شگوفہ پُھوٹا

اور مہک پھیل گئی سرمئی خاموشی کی

آسمان سے کوئی بے نام ستارہ ٹُوٹا

نیم خوابیدہ شجر نے کوئی سرگوشی کی

چاند خاموش تھا، یک لخت صدا دینے لگا

کروٹیں لیتی ہوئی نیند سے بیدار ہوئی

وقت یکدم کسی آہٹ کا پتہ دینے لگا

دامنِ کوہ سے بدلی سی نمودار ہوئی

گھور گھنگور گھٹا لائی گھنیرے بادل

مہرباں پانی گلی کُوچوں میں ٹِپ ٹِپ برسا

دل کے اُس پار ہوئی کوئی عجب سی ہلچل

اور رگ و پَے میں تری یاد کو کوندا لپکا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]