بارش ِ رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے

بارشِ رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے

اے خدا، نعت فقط حرف و بیاں تک نہ رہے

اے مرے آتشِ فارس کے بجھانے والے

اس طرح ہجر بجھا دیں کہ دھواں تک نہ رہے

شہرِ طیبہ کی سکونت جو ہمیں مل جائے

عشرتِ زیست ہے کیا خواہش جاں تک نہ رہے

صاحبِ شقِ قمر جس پہ عنایت کر دیں

وہ اگر آئینہ جوڑے تو نشاں تک نہ رہے

سینہ ءِ سنگ میں حشرات بھی پڑھتے ہیں سلام

سلسلے مدح کے پتھر کی زباں تک نہ رہے

روز محشر تھا مرا نام ثنا خوانوں میں

یعنی یہ شعر میرے ایک جہاں تک نہ رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]