بازی گران و شعبدہ بازو، نوید ہو

ہم اپنے معجزات کے ہاتھوں فنا ہوئے

ہم بے مثال لوگ تھے کیا مارتا کوئی

ہم لوگ اپنی ذات کے ہاتھوں فنا ہوئے

چھوٹی سی ایک بات رہی تجھ کو اور ہم

چھوٹی سی ایک بات کے ہاتھوں فنا ہوئے

حیراں کھڑی ہوئی ہے سرہانے پہ موت بھی

ہم ہیں کہ جو حیات کے ہاتھوں فنا ہوئے

جو ہو چکا وہ ظلم سہا جا چکا مگر

کچھ خواب ممکنات کے ہاتھوں فنا ہوئے

ہم مطمئن تھے کرب کے مرکز کو کاٹ کر

پر اس کی باقیات کے ہاتھوں فنا ہوئے

اپنے پروں کے رنگ بچے تیرے ہاتھ پر

ہم تیرے التفات کے ہاتھوں فنا ہوئے

یکلخت جیسے پھوٹ بہی غم کی تیرگی

منظر سیاہ رات کے ہاتھوں فنا ہوئے

کیا خودکشی نہیں؟ کہ ترے شاعرِ جنوں

اپنے تصورات کے ہاتھوں فنا ہوئے

آخر کو داستان ہوئے ، داستان گو

کردار واقعات کے ہاتھوں فنا ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]