بامِ احساس پہ چمکے شبِ دیدار کے دیپ

چہرۂ طلعتِ کُل، گیسوئے خمدار کے دیپ

مدحتِ صیغۂ ضو بار کا یہ مہرِ سخن

بجھنے دیتا ہے کہاں خامۂ نادار کے دیپ

موجۂ حرف سے کِھلتے نہیں امکان کے رنگ

نعت کے آگے مچلتے نہیں اظہار کے دیپ

مَیں مدینے میں ہُوں یا مجھ میں ہے وہ شہرِ کرم

نسبتِ نُور سدا رکھتے ہیں آثار کے دیپ

نُور کے پردوں کے ما بعد ہے وہ نُور فشاں

شوق بس چوم کے آ جاتا ہے دیوار کے دیپ

راستے خود ہی دکھاتے رہے معراج کی شب

راہ سے آگے چمکتے ہوئے رہوار کے دیپ

روشنی کر گئے تا حشر وہ طلعت کے امام

شبِ کربل میں جو چمکے ترے گھر بار کے دیپ

جاری ہے مہر و مہ و نجم کی دریوزہ گری

روشنی بانٹ رہے ہیں ترے انوار کے دیپ

چھٹ ہی جائے گا شبِ ہجر کا بے نام سکوت

غم کے موسم میں کِھلے ہیں مرے غمخوار کے دیپ

عجز نے رکھ دیا قدموں میں سرِ شوقِ طلب

خانۂ فہم میں چمکے ترے اَسرار کے دیپ

منتظِر اذن و عنایت کے ہیں مقصودؔ ابھی

جاگ اُٹھیں گے یہ سب ٹوٹتے پندار کے دیپ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]