بجائے کوئی شہنائی مجھے اچھا نہیں لگتا

محبت کا تماشائی مجھے اچھا نہیں لگتا

وہ جب بچھڑے تھے ہم تو یاد ہے گرمی کی چھٹیاں تھیں

تبھی سے ماہ جولائی مجھے اچھا نہیں لگتا

وہ شرماتی ہے اتنا کہ ہمیشہ اس کی باتوں کا

قریباً ایک چوتھائی مجھے اچھا نہیں لگتا

نہ جانے اتنی کڑواہٹ کہاں سے آ گئی مجھ میں

کرے جو میری اچھائی مجھے اچھا نہیں لگتا

مرے دشمن کو اتنی فوقیت تو ہے بہر صورت

کہ تو ہے اس کی ہمسائی مجھے اچھا نہیں لگتا

نہ اتنی داد دو جس میں مری آواز دب جائے

کرے جو یوں پذیرائی مجھے اچھا نہیں لگتا

تری خاطر نظر انداز کرتا ہوں اسے ورنہ

وہ جو ہے نا ترا بھائی مجھے اچھا نہیں لگتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]