بجھ گیا دیپ بھی جلتا جلتا

اِس قدر خوف تھا لمحہ لمحہ

میں تِرے شہر سے یوں لوٹ آیا

درد بکھرے ملے چہرہ چہرہ

دور ہوتی گئی منزل مجھ سے

اور میں تھک گیا چلتا چلتا

میں اگر سائے طلب کرنے لگوں

دھوپ بچھ جائے گی رستہ رستہ

وقت کی دُھول سے یادوں کے سبھی

نقش مٹ جائیں گے رفتہ رفتہ

خود پہ تھا زعم جسے حد درجے

ہوگیا ٹوٹ کے ریزہ ریزہ

اُس کی چاہت بھی میں پہلی پہلی

پیار میرا بھی وہ پہلا پہلا

پھول کھلنے لگے میرے اطراف

ہنس پڑا تھا کوئی روتا روتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]