بخت لگتا ہے کہ یاور ابھی ہونے لگا ہے

روبرو نور کا پیکر ابھی ہونے لگا ہے

میں بھی تو شہرِ کرم بار کے رستے میں ہوں

سنگریزہ تھا تو گوہر ابھی ہونے لگا ہے

وہ جو اک تاج سرِ عجز ہے نعلینِ کرم

دیکھنا نازشِ اختر ابھی ہونے لگا ہے

میرے بیٹے کو بھی اب نعت کی تلقین کریں

وہ مرے قد کے برابر ابھی ہونے لگا ہے

اُن کی زلفوں میں چمکتا ہوا نوری قطرہ

شیشۂ دل پہ سمندر ابھی ہونے لگا ہے

میرے گھر آنے لگے ہیں یہ پیامی جھونکے

میرا گھر بار معطر ابھی ہونے لگا ہے

دل کہ بیمار تھا، پژمردہ تھا ، افسردہ تھا

آپ کی یاد سے بہتر ابھی ہونے لگا ہے

ذرا سوچاہی تھا مقصودؔ کہ اک نعت لکھوں

خامۂ شوق منور ابھی ہونے لگا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]