بدلتے وقت کا اک سلسلہ سا لگتا ہے

کہ جب بھی دیکھو اسے دوسرا سا لگتا ہے

تمہارا حسن کسی آدمی کا حسن نہیں

کسی بزرگ کی سچی دعا سا لگتا ہے

تیری نگاہ کو تمیزِ رنگ و نور کہاں

مجھے تو خوں بھی رنگِ حنا سا لگتا ہے

دماغ و دل ہوں اگر مطمئن تو چھاؤں ہے دھوپ

تھپیڑا لُو کا بھی ٹھنڈی ہوا سا لگتا ہے

تمہارا ہاتھ جو آیا ہے ہاتھ میں میرے

اب اعتبار کا موسم ہرا سا لگتا ہے

نکل کے دیکھو کبھی نفرتوں کے پنجرے سے

تمام شہر کا منظر کھلا سا لگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]