(بدن)

یہ تارِ عنکبُوت کہ بدن کہا گیا جسے
بڑا عجیب جال ہے
کہ جس کی زد میں آ گئے تو جیسے ایک ہاتھ نے
تمام منطقیں بجھا کے راکھ میں سمیٹ دیں
شعور کی بچھی ہوئی سبھی صفیں لپیٹ دیں
بدن ہے ایک شعبدہ
کہ جس کے دائرے میں ہر فریب بھی یقین ہے
خطا کمال کسب ہے ، گناہ بھی حسین ہے
جہاں پہ عقل رہ گئی وہاں بدن زہین ہے
بدن کڑا طلسم ہے
یہ وہ طلسم ہے کہ یہ جہاں بھی کارگر ہوا
تو اس کے لمس سے نظر کے زاویے بدل گئے
اگرچہ اولیں زباں کے ذائقے بدل گئے
پھر اس کے بعد چاہتوں کے مرحلے بدل گئے
بدن وہ جنگجو ، کہ جس کے وار سے اماں نہیں
بدن وہ تند خو ، کہ جس کو حاجتِ عناں نہیں
بدن وہ سانپ ہے کہ جس کی سرسراہٹیں فسوں
بدن کا رنگ جادُوئی تو مسکراہٹیں فسوں
بدن ہے ایک معجزہ ، اگرچہ عارضی ہے یہ
مگر یہ عارضی چمک بصارتیں فنا کرے
بدن طلوع جو ہو کہیں تو چشمِ شوق کیا کرے؟
مگر
بدن بھی کچھ نہیں
یہ وقت جو کہ اس بدن کا دائمی رقیب ہے
بدن کی گھات میں ہے کہ بدن کی تابناکیاں
مٹا کے اک نئے طریق سے بیان لکھ سکے
بدن پہ جھریوں کی شکل داستان لکھ سکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]