بس بہت ہو گئے نیلام، چلو لوٹ چلو

اتنے ارزاں نہ کرو دام، چلو لوٹ چلو

نہ مداوا ہے کہیں جن کا، نہ امیدِ قرار

ہر جگہ ہیں وہی آلام، چلو لوٹ چلو

معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات

اس سے پہلے کہ ڈھلے شام، چلو لوٹ چلو

ماہِ نخشب سے یہ چہرے ہیں نظر کا دھوکا

چاند اصلی ہے سرِ بام، چلو لوٹ چلو

پتے اُڑتے ہیں ہواؤں میں پرندوں کی جگہ

رُت بدلنے کا ہے پیغام، چلو لوٹ چلو

اس سے پہلے کہ زمانہ کوئی دے دے عنوان

واقعہ ہے ابھی بے نام، چلو لوٹ چلو

اک ہوس کہتی ہے ’’کچھ دور ذرا اور ابھی“

اک صدا آتی ہے ہر گام ’’چلو لوٹ چلو “

منتظر کوئی نہیں مانا وہاں، پھر بھی ظہیرؔ

کچھ ادھورے ہیں ابھی کام، چلو لوٹ چلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]