بلندیوں کے نتائج سے ڈر چکا ہوں میں

سو اپنی سوچ کے پر ہی کتر چکا ہوں میں

تجھے گنوا کے بھی جینا ، کمال کرنا تھا

سو یہ کمال مری جان کر چکا ہوں میں

یہ زیر و بم مرے سینے کا صرف دھوکا ہے

میں سچ کہوں تو حقیقت میں مر چکا ہوں میں

میں ایک شخص نہ تھا ، عشق کا زمانہ تھا

سو عہد ہو کے جہاں سے گزر چکا ہوں میں

ادا ہوا نہ ہوا قرض تیرا تو جانے

حیات تیری ہتھیلی پہ دھر چکا ہوں میں

مثالِ چشم کھلے تھے تمہارے بندِ قباء

غبارِ خوابِ سحر تھا بکھر چکا ہوں میں

بس اک نشان سا باقی ہوں حافظے پہ ترے

میں زخمِ عشق اگر تھا تو بھر چکا ہوں میں

تمہاری لاج مروت میں چپ رہے پھر بھی

میں جانتا ہوں کہ دل سے اتر چکا ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]