بلند بخت اس لئے بھی ہے تنا کھجور کا

کہ لمس اِس کی چھال میں ہے بازوئے حضور کا

یہ کائنات سرمئی کتاب کی مثال ہے

درِ نبی ہے گام گام حرف حرف نور کا

سماعتوں کے طاق میں چراغ تابدار ہیں

پیَمبری ہے آپکی کہ سلسلہ ہے نور کا

یہ سبز موسموں میں ہے نموئے تاب آپ سے

یہ منظروں میں حسن بھی ہے آپ کے ظہور کا

فراغ ہی نہ ہوگا دل کو ان کی جلوہ گاہ سے

تو کس کو آئے گا خیال سلسبیل وحور کا

ثنا گری میں زیرِ ذکر ہیں تمام ہیئتیں

حسیں ترین لگ رہا ہے سلسلہ بحور کا

میں امتی ہوں اور اوجِ ناز پر ہوں اس لئے

فضا کے اس دیار میں گزر نہیں غرور کا

رضا کے باب میں محبتوں کا سب کمال ہے

حِرا کو دیکھتا ہے جس طرح چراغ طور کا

وہ کیفیت ہے وجد کی کہ لگ رہا ہے عشق میں

غلام کا وجود بھی شجر کوئی سرور کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]