بلند بخت اس لئے بھی ہے تنا کھجور کا
کہ لمس اِس کی چھال میں ہے بازوئے حضور کا
یہ کائنات سرمئی کتاب کی مثال ہے
درِ نبی ہے گام گام حرف حرف نور کا
سماعتوں کے طاق میں چراغ تابدار ہیں
پیَمبری ہے آپکی کہ سلسلہ ہے نور کا
یہ سبز موسموں میں ہے نموئے تاب آپ سے
یہ منظروں میں حسن بھی ہے آپ کے ظہور کا
فراغ ہی نہ ہوگا دل کو ان کی جلوہ گاہ سے
تو کس کو آئے گا خیال سلسبیل وحور کا
ثنا گری میں زیرِ ذکر ہیں تمام ہیئتیں
حسیں ترین لگ رہا ہے سلسلہ بحور کا
میں امتی ہوں اور اوجِ ناز پر ہوں اس لئے
فضا کے اس دیار میں گزر نہیں غرور کا
رضا کے باب میں محبتوں کا سب کمال ہے
حِرا کو دیکھتا ہے جس طرح چراغ طور کا
وہ کیفیت ہے وجد کی کہ لگ رہا ہے عشق میں
غلام کا وجود بھی شجر کوئی سرور کا