بنا رہے ہو جو نقش و نگار شیشے پر

کہ بال آنے لگے ہیں ہزار شیشے پر

سنور رہا تھا عجب بے خودی میں دیر تلک

وہ شخص چھوڑ گیا ہے خمار شیشے پر

دکھائی دے رہا تھا ٹہنیوں پہ ایک ہی پھول

اتر رہی تھی عجب سی بہار شیشے پر

بہت سے چہروں میں الجھا ہوا ہے اک چہرہ

میں دیکھتا ہوں کوئی انتشار شیشے پر

لکیر کھینچی تھی شفاف پانیوں پہ کہیں

میں عکس ڈھونڈتا ہوں داغدار شیشے پر

دھواں دھواں ہے فضا روشنی کے ھاتھوں سے

بنا دیا گیا ہے شاہکار شیشے پر

میں راستوں میں کہیں خود کو چھوڑ آیا مگر

لکھا ہوا تھا ترا انتظار شیشے پر

پڑا ہوا ہوں زمیں کی سنہری مٹی میں

میں سنگ ہوں نہ مجھے اعتبار شیشے پر

وہ ٹوٹتی ہوئی آواز جانے کس کی تھی

خراشیں پڑنے لگیں بے شمار شیشے پر

زبیر اُس نے یہ دیکھا ہے کس محبت سے

نگاہ اٹھ رہی ہے بار بار شیشے پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]