بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر

مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے

علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر

منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے

مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر

قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے

مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد القادر

سلک عرفان کی ضیا ہے یہی درِ مختار

فخرِ اشباہ و نظائر بھی ہے عبد القادر

اس کے فرمان ہیں سب شارح حکم شارح

مظہر ناہی و آمر بھی ہے عبد القادر

ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے

کارِ عالم کا مدبر بھی ہے عبد القادر

رشکِ بلبل ہے رضا لالہ صد داغ بھی ہے

آپ کا واصف و ذاکر بھی ہے عبد القادر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

ہیں راہِ منقبت میں ہزاروں ہی پیچ و خم

اے راہوارِ طبع سنبھل کر قدم قدم ہو داستاں حسینؓ کی کس طرح سے رقم دل بھی لہو لہو ہے قلم کا بھی سر قلم ملتی نہیں نظیر وہ ٹوٹا ہے کوہِ غم حیدرؓ کے نورِ عین پہ اللہ رے ستم وہ فاطمہؓ کے لعل وہ سبطِ شہِ امم لختِ جگر علی کے وہ اللہ […]