بُرا نہ مانیے معصوم سی جسارت کا

میں منتظر ہوں اگر آپ کی زیارت کا

سوال نامہ نیا ہاتھ میں تھما دے گا

میں حل نکالوں گا جب وقت کی بجھارت کا

اداسیوں کا الگ ذائقہ سہی لیکن

چکھا ہے ہم نے مزہ اک نئی شرارت کا

تمام رات ترے ساتھ جاگتا رہا ہے

ہمارا خواب ہے واقف تری بصارت کا

منافع درد کی صورت میں مل رہا ہے مجھے

بس ایک فائدہ ہے عشق کی تجارت کا

بدن میں آنکھوں کے در جا بجا نکل آئے

یہ کس نے بدلا ہے نقشہ مری عمارت کا

لپٹ نہ جائیں کہیں خار میرے دامن سے

اٹھاؤں حلف اگر پھول کی طہارت کا

مگر جو سوچ نکالی کمال کی تم نے

اگرچہ اور ہی مفہوم تھا عبارت کا

تراش کر میں نے پتھر کو دھڑکنیں کیا دیں

مچا ہے شور جہاں میں مری مہارت کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]