بُطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تُوہی

بُطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تُو ہی

صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے تُو ہی

دلوں سے رنج و الم کو نکالتا ہے تُو ہی

نفَس نفَس میں مَسرّت بھی ڈالتا ہے تُو ہی

وہ جنّ و انس و مَلک ہوں کہ ہوں چرند و پرند

تمام نوعِ خلائق کو پالتا ہے تُو ہی

بغیر لغزشِ پا تو ڈبو بھی سکتا ہے

پھسلنے والوں کو بے شک سنبھالتا ہے تُو ہی

تُو ہی تو مُردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے

گُلوں کے جسم میں خوشبوئیں ڈالتا ہے تُو ہی

ترے ذبیح کی نازک سی ایڑیوں کے طفیل

سلگتے صحرا سے زم زم نکالتا ہے تُو ہی

نجات دیتا ہے بندوں کو ہر مصیبت سے

شکم سے مچھلی کے زندہ نکالتا ہے تُو ہی

جو لوحِ ذہنِ مُشاہدؔ میں بھی نہیں یارب

وہ حرفِ تازہ قلم سے نکالتا ہے تُو ہی​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]