بڑی تشنگی ہے نیاز کی، بڑی آرزو ہے غُلام کو

کوئی ایسا صیغۂ شوق دے کہ وہ لکھ سکے ترے نام کو

یہ عجیب حالتِ رفتگی ترے شہرِ ناز و کرم میں ہے

کبھی دیکھتا ہوں میں خاص کو، کبھی سوچتا ہُوں میں عام کو

اسے زندگی کا نکھار دے، اسے روشنی سے سنوار دے

کسی رتجگے کی اداس شب، کوئی لمس دے کسی خام کو

وہ عجیب ساعتِ نورتھی پسِ دید ہی کہیں رہ گئی

کبھی ڈھونڈتا ہوں میں خواب کو، کبھی چومتا ہوں میں بام کو

تُو خیالِ عجز کے گھر میں آ، تُو اِدھر سے آ تُو اُدھر سے آ

مرے عجز و شوق کے سلسلے ہیں ترستے تیرے خرام کو

تری دسترس میں ہیں یا نبی ! مری ساعتیں، مری چاہتیں

تُو نکھار صبحِ طلب مری، تو سنوار عرصۂ شام کو

تری بارگاہِ جمال میں مرے نطق و خامہ ہیں سر بہ خم

تو خیال دے مرے حرف کو، تُو اُجال میرے کلام کو

مری صبح صبح ہے دم بخود ترے خوابِ دید کے شوق میں

مری رات رات ہے منتظر، کبھی دیکھ میرے خیام کو

یہ ترے کرم کے ہیں فیصلے، یہ تری عطا کے ہیں سلسلے

مری شامِ ناقص و نا تمام پکارے ماہِ تمام کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]