بیٹھے ہیں ترے در پہ غلاموں پہ نظر ہو

تم والیِ کونین ہو تم نازِ بشر ہو

مدت سے ترے شہر کے انوار نہ دیکھے

مژدہِ کرم اب تو ملے اذنِ سفر ہو

بِن تیرے جو گزری ہے وہ ناشاد و پشیماں

باقی جو بچی ہے ترے قدموں میں بسر ہو

یہ اُن کی عطا ہے کہ ملی نوکری مجھ کو

وہ دیکھتے کب ہیں کہ کوئی وصف و ہنر ہو

بس انکو ہی مانا ہے ہمیں ان سے ہے مطلب

ہم کب ہیں جنہیں رونقِ دُنیا کا اثر ہو

دل تیرے تصور سے چمک اُٹھتا ہے میرا

ہو’’ نور علٰی نور ‘ ‘اگر تیرا گذر ہو

اُنْظُر کہوں آقا کبھی اَدْرِکْنِیْ پکاروں

یہ ورد وظیفہ ہی مرا شام و سحر ہو

خالی ہے شکیلؔ اب بھی یہ دامن دمِ رخصت

اُس شاہِ غریباں مرے آقا کو خبر ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]