بے تابیاں نہیں ہیں کہ رنج و الم نہیں

اِس ایک دل پہ عشق کے کیا کیا کرم نہیں

دو دن کی زندگی اسے صدیوں سے کم نہیں

وہ کم نصیب ہے جسے توفیقِ غم نہیں

دنیا ستم طراز سہی کوئی غم نہیں

دنیا سے بھاگ جائیں مگر ایسے ہم نہیں

منزل مری جدھر ہے رخِ دل اُدھر کہاں

صد حیف مجھ سے دل ہی مرا ہمقدم نہیں

دنیا کی اس بساط پہ اللہ رے انقلاب

آدم ہی ایک چیز ہے وہ بھی اہم نہیں

اپنی شکست مان لے اے خنجر آزما

خنجر میں تیرے خم ہے مرا سر تو خم نہیں

کرنا ہے اعتبار تو کر لو نظرؔ پہ تم

سچی ہو بات پھر بھی وہ کھاتا قسم نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]