بے خبر مخبرِ صادق کی خبر رکھتے ہیں

وہ اندھیرے کو بھی، صد رشک قمر رکھتے ہیں

نور ذات احدیت کا سراپا، لیکن

بشریت کا بھی رخ، خیرِ بشر رکھتے ہیں

سر، کہاں ہوگا! گمانوں کا گماں، ناممکن

آپ تو پاؤں بھی، تا عرشِ گزر رکھتے ہیں

جلوہ صاحب معراج سے، روشن یہ ہوا

جلوہ ذات بھی ، اندازِ بشر رکھتے ہیں

ہم تو واللہ، دل و جاں بھی نہیں رکھ سکتے

لوگ کیسے؟ درِ سرکار پہ سر رکھتے ہیں

ناز اعمال پر کرتے ہی نہیں، اہل اللہ

وہ نگاہِ شہِ والا پہ نظر رکھتے ہیں

اڑ کے فوراً ہی پہنچ جاتے ہیں قدموں کے قریں

سچے عشاق بھی، جبریل کا، پَر رکھتے ہیں

بحر سرکار نظر آئے نہ کیسے مجھ کو

ذوقِ دیدار خدا، دیدہ تر رکھتے ہیں

بعد سرکار، نبی ہوتا، جو کوئی، تو جناب

عظمتیں ایسی بھی، فاروق عمر رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]