بے گھر ہوئیں تو گھر کی ضرورت نہیں رہی

چڑیوں کو پھر شجر کی ضرورت نہیں رہی

پہلی نظر میں یار مجھے حِفظ ہو گیا

سو دوسری نظر کی ضرورت نہیں رہی

برسوں کی دوڑ دھوپ سے گھر تو بنا لیا

پھر یوں ہوا کہ گھر کی ضرورت نہیں رہی

رو دھو کے اِک دن آنسو مرے خُشک ہو گئے

پھر مجھ کو چشمِ تر کی ضرورت نہیں رہی

ڈر تو فقط یہی تھا کہ کھو نہ جائے تُو

تُو کھو گیا تو ڈر کی ضرورت نہیں رہی

ویرانیوں کی ریت سے گھر بھر گیا مرا

صحراؤں کے سفر کی ضرورت نہیں رہی

اے زندگی! بھلا تجھے کیسے بتاؤں میں؟

تُو میری عُمر بھر کی ضرورت نہیں رہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]