تارہ تارہ بکھر رہی ہے رات

دھیرے دھیرے سے مر رہی ہے رات

ہاتھ میں کاسۂ فراق لئے

سر جھکائے گزر رہی ہے رات

کتنی تنہا فضا ہے گلیوں کی

سرد آہیں سی بھر رہی ہے رات

میری آوارگی کے پہلو میں

کو بکو در بدر رہی ہے رات

اک دریچے سے راہ تکتی ہے

سہمی سہمی ہے، ڈر رہی ہے رات

آئنہ رو ہے منتظر کب سے

بال کھولے سنور رہی ہے رات

نیم روشن سی خوابگاہوں میں

بے لبادہ بکھر رہی ہے رات

برگِ عارض پہ صورتِ شبنم

قطرہ قطرہ اُتر رہی ہے رات

پھر تجھے بھولنے کی کوشش میں

جانے کیا یاد کر رہی ہے رات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]